مثل هذه الشخصية لا توجد في العالم إلا أقل قليل برد الله مضجعه
@mohammadabdullah58344 жыл бұрын
شيخنا من كبار العلماء في الهند. اللهم اغفره وأرحمه وأدخله في فسيح جناته.
@salahuddinqasmiqasmi8074 жыл бұрын
تغمدہ اللہ تعالی وجعل لہ مکانامرموقا فی الجنة
@bilalqasminaglarai62198 жыл бұрын
فصیح اللسان بلیغ الکلام مفخرةالعالم الاسلامی. تغمدہ اللہ تعالی بغفرانہ
@muhammedrahmathullakuruppa909 жыл бұрын
هذا سماحة الشيخ أبو الحسن الندوي، هو مفكر إسلامي وداعية هندي، صاحب تصانيف عربية كثيرة، يعرف أيضا بـ"علي ميان" كان عضوا من أعضاء رابطة العالم الإسلامي، وكان بارعا في اللغة العربية وأدبها. وبعض كتبه يدرس في بعض المدارس العربية في العالم حتى في جامعة الأزهر بمصر. وانتقل إلى رحمة الله تعالى يوم الجمعة 31 ديسمبر 1999 الموافق 23 رمضان 1420هـ.
@AliTwaij3 ай бұрын
تقبله الرحمن اظن هو من آل البيت ايضا
@SyedTalhaMallick2 ай бұрын
@@AliTwaijنعم نسب إلى حسن ابن علي ره.
@mner1234510 жыл бұрын
هذا شيخ العلامة ابو الحسن الندوب رحمة الله رحمة وأوسعه
@sunasramubashshir60296 жыл бұрын
السعد
@hajizadaniyazi74838 ай бұрын
غفرالله شیخنا الجلیل و ادخله فسیح جناته
@hafizowaiskanshimeerut69263 жыл бұрын
ما شاء اللہ اللہ مولانا ابوالحسن علی ندوی کی مغفرت فرما آمین
@yasarcanl25084 жыл бұрын
رحمه الله رحمة واسعة واسكنها فسيح جناته
@abdurrahimrahim82485 жыл бұрын
Great Islamic personality
@WaseemKhan-jm3ud3 жыл бұрын
Masha Allah ❤❤❤
@mrafiqsyed25138 жыл бұрын
قيمة الامة الاسلامية: "أللهم إن تهلک هذہ العصابة لن تعبد"
@texaschilli5684 Жыл бұрын
بطل بطل مجاهد العلامة الشبخ السيد / ابى الحسن علي الندوي يرحمه وغفر له واسكنه فسيح جناته يارب.. الله أكبر
@efathi28425 жыл бұрын
من اعظم علماء الامة فى العصر الحديث لكن للاسف لا يعرف عنه الكثير. صاحب اهم كتاب فى القرن الماضى "ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين" .
@mostafakamal-qp4zw Жыл бұрын
ما شاء الله❤
@salmanchaudhari42225 жыл бұрын
ھذا الشیخ من العلمإ الکبار من الھند بل من لعالم
@mohammedezaldeen76883 ай бұрын
ما شاء الله هذه المصورات كنوز ثمينة من هذا الذي تم تسليط الصورة عليه في الدقيقة الثامنة ؟
@sunarbangla3650 Жыл бұрын
allahu akbar allah mohan
@muftiubaidurrahmannadwi29104 жыл бұрын
ما شاء الله
@mner1234510 жыл бұрын
ابو الحسن الندوي
@muftidilshad29475 жыл бұрын
هذه الشخصية
@ZosefJon3 ай бұрын
هو أستاذ الأستاذ نور الله مرقده
@MohdMohd-gc9ud2 ай бұрын
Mohd parvez
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
علامہ ندوی رحمہ کے عالم عرب سے وسیع تعلقات میرا ساز اگرچہ ستم رسیدہ ہائے عجم رہا وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی علامہ ندوی رحمہ یہ شعر گنگنایا کرتے تھے اور یقینا وہ علامہ اقبال رحمہ کے اس شعر کے مصداق تھے ۔ عربی زبان و ادب سے علامہ ندوی رحمہ کا تعلق مادری زبان کی طرح تھا ۔ انہوں نے عربی کی ابتدائی کتابیں اور نظم و نثر کا معتد بہ حصہ شیخ خلیل عرب سے پڑھا ۔ یہ اہل زبان بھی تھے اور صاحب ذوق بھی ، انہوں نے چند ابتدائی کتابیں پڑھانے کے بعد انہیں عربی میں گفتگو کا پابند کردیا تھا ۔ ادبیات کی اعلی تعلیم علامہ تقی الدین ہلالی سے حاصل کی جو عربی زبان و ادب کے صف اول کے ماہرین اور ادباء میں شمار کیے جاتے تھے ۔ عربی نژاد اور ماہر فن تھے ۔ عالم عرب خصوصا مصر و شام کے ادباء و اہل قلم ، صف اول کے عرب علماء اسلام اور اہل فکر و نظر سے علامہ ندوی رحمہ کی واقفیت اور تعلق ایسا رہا جیسے کوئی اہل زبان اپنی زبان کے مشہور اہل قلم اور ادباء اور عالم عرب کی علمی تحریکوں ، سیاسی رجحانات اور وہاں کی بڑی بڑی شخصیتوں سے اچھی طرح واقف ہی نہیں بلکہ ان کے امتیازی اوصاف اور فکر و فن کے خصوصیات سے بھی اچھی طرح آگاہ تھے ۔۔۔ مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ پر علیگڑہ مسلم یونیورسیٹی کے قومی سیمینار منعقدہ فروری ٢٠٠٠ میں پڑھا گیا مقالہ ' علامہ ندوی رحمہ کے عالم۔عرب پر اثرات ' کے عنوان پر پڑھا گیا مقالہ ۔ یہ طویل مقالہ ہے ۔ مختلف اقساط میں پورے مقالہ کو پیش کردیا جائے گا ۔ طلباء مدراس عربیہ کو مفکر اسلام علامہ ندوی رحمہ کی زندگی کے اس پہلو کی طرف توجہ دینی چاہیے اور عالم عرب کو اپنے فکر و خیال میں اس طرح جگہ دینی چاہیے جس طرح علامہ ندوی رحمہ نے دی تھی ۔ مجھے مختلف عرب ملکوں میں بحیثیت عربی -- انگریزی مترجم کام کرنے کا موقع ملا ہے ۔ میں نے جولائ ١٩٧٩ میں شمالی افریقہ کے ملک لیبیا سے شروع کیا تھا ۔ اس ملک کے تین سالہ قیام کے دوران مختلف اقوام کے تعلیم یافتہ اشخاص سے جن میں عرب بھی خصوصا مصری ، علامہ بس وہ رحمہ کی شخصیت کے اس اہم اور تاریخی اہمیت کے حامل پہلو کی طرف متوجہ کیا ۔ اس موضوع کو طلباء جتنی اچھی طرح سمجھ سکیں گے اور استفادہ کی کوشش کریں گے ، ان کو اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوگا ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Islamic Institute nadvilaeeque@gmail.com
@user-sf7xn9qq9u2 ай бұрын
إذا مررنا بلافتات كثيرة يوميا ربما لاتستدعي انتباها شيئ عادي ليس له به حاجة إليه التاريخ الاسلامي والسيرة النبوية زحفت قريش على المدينة ١٠٠٠ رجل ٣١٣ فيهم صبيان وتملقو لأن يشاركو في الحرب المقرر للمصير هي إرادة الله كان النصر المحير للألباب
@adilmahdi436011 жыл бұрын
لا ادري عن هذا الشيخ شئ
@JunaidKhan-ie7xp5 жыл бұрын
هو العلامة ابوالحسن علی الحسنی الندوی الرٸیس السابق لدارالعلوم التابعة لندوة العلماء بلکناٶ فی الهند وله مٶلفات کثیرة اشهرها ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین
@shahidshahid2226 Жыл бұрын
اقرء کتبہ حتی تعرفہ معرفۃ جیدۃ ابوالحسن علی ندوی ایپ abulhasan ali nadwi app
@mohammedezaldeen76883 ай бұрын
قال يحيى بن عامر لرستم قائد الفرس عندما سأله مالذي جاء بكم ؟ قال: الله ابتعثنا لنخرج من شاء من عباد العباد الى عبادة الله وحده و لنخرجكم من ضيق الدنيا إلى سعتها و من جور الأديان الى عدل الاسلام التامل الثاني من الحلقة قول الرسول ص في دعاىه قبل معركة بدر ان تهلك هذه العصبة لن تعبدَ على هذه الارض ابدا
@laeequenadvi47462 жыл бұрын
عالم اسلام کی متفق علیہ شخصیت مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ علامہ یوسف قرضاوی جو مصری ہیں اور فی الحال قطر کے شہری ہین ، دوحہ مین اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ : " اگر عالم اسلام کسی شخصیت پر متفق ہوسکتا ہے تو وہ شیخ ابوالحسن علی ندوی شخصیت ہے "۔ اگر اس قول کی روشنی مین علامہ ندوی رحمہ عالم اسلام کے لیے ایک خاص نعمت اور رحمت تھی ۔ ہندستان میں بھی جب مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاتا تو وہی اس کو ختم کرنے کے لیے انہی کی طرف رجوع کیاجاتا تھا ۔ ان کا فیض تھا کہ کسی بحران کے وقت انہی کی ذات کام اتی اج ہند کی امہ مسلمہ اپنی تاریخ کے سخت دور سے گزر رہی ہے ۔ ایسی حالت میں ہمین ان کی یاد آتی ہے ۔ عالم اسلام مین ایک غیر متنازعہ سخصیت قرار دیا جانا بہت بڑی بات ہے ۔ عالم اسلام گونا گوں رنگون کا خوبصورت نقشہ ہے ۔ ان رنگون میں عرب و عجم دو اہم رنگ ہین ۔ ان مین ہر ایک کی اپنی خصوصیت اور منفرد شان ہے ۔ عالم عرب مین مصر کو اس کی قدیم تاریخ اور اسلامی علوم و ثقافت میں مرکزی مقام اور منصب قیادت حاصل ہے ۔ عجم کے مختلف رنگون میں ترکی ، ملائشیا اور پاکستان وغیرہ کی اپنی خصوصیت اور انفرادیت ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام کی مختلف قومون کا کسی ایک شخصیت پر متفق ہونا بہت نازک مسئلہ یے ۔ ان گونا گوں رنگوں کے عالم اسلام میں علامہ یوسف قرضاوی یہ کہنا کہ شیخ ابوالحسن علی ندوی رحمہ کی ذات ہی ایک ایسی شخصیت ہے جو کہ عالم اسلام کے سیاستداں علماء اور مفکرین تمام اختلافات کے باوجود ان کی ذات پر متفق ہوسکتے ہین ۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہان علامہ یوسف قرضاوی مصری ہیں ، اس پر عالم اسلام کی سب سے بڑی اور قدیم یونیورسٹی الازہر ما رنگ بھی چڑھا ہوا ہے ۔ انہوں نے اس سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی ہے ۔ وہ عربی زبان و ادب کے ماہر اور شاعر بھی ہین ۔ انہوں نے متعدد موضوعات پر عربی مین کتابین تصنیف کی ہین ۔ ان کی مشہور کتاب ' فقہ الزکوة ' پر انہیں شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا ۔ اپنی جوشیلی خطابت مین مشہور اور امہ مسلمہ کے لیے درد مند دل رکھتے ہیں ۔ عالمی سطح کے مشہور عالم دین اور مفکر اسلام اتنی عظیم شخصیت کا یہ کہنا کہ : " شیخ ابوالحسن علی ندوی رحمہ کی شخصیت ایسی ہے کہ عالم اسلام ان پر متفق ہوسکتا ہے " یہ ایک ایسا مقام و مرتبہ ہے جسے اللہ جل شانہ کا خاص فضل ہی کہا جاسکتا ہے ۔ عالم اسلام مین غیر متنازعہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص جامع صفات ہو ، وہ مختلف علوم پر حاوی ہو اور اس کے اندر علمی تبحر ہو ، عصر حاضر کے تقاضون سے باخبر اور ، اس کی فکر عالی اور عالمی ہو وہ مقناطیسی شخصیت کا حامل ہو ۔ عالم اسلام مین وہ ہر اعتبار سے معتبر اور مستند ہو ۔ کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا ست علامہ ندوی رحمہ ہندستان کے معروف و مشہور دینی اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ اس خاندان میں سید احمد شہید رحمہ جیسے ولی اللہ اور مجاہد پیدا ہوئے ۔ ڈاکٹر سید محمود مرحوم کو حضرت سید احمد شہید رحمہ سے بہت محبت و عقیدت تھی ۔ وہ ان کو ہندستان کی جدو جہد آزادی کا اولین داعی اور قائد سمجھتے تھے ۔ علامہ ندوی رحمہ کی سب سے پہلی اردو تصنیف سیرت سید احمد شہید رحمہ تھی ۔ اس خاندان کے ایک بڑے بزرگ اور ولی اللہ شاہ علم اللہ ہیں ۔ رائے بریلی اس خاندان کا اصل وطن ہے ۔ دائرہ شاہ علم اللہ کے نام سے موسوم ہے ۔ علامہ ندوی رحمہ اپنی بہت سی تصانیف یہیں مکمل کیں ۔ آپ کے والد حکیم عبد الحی حسنی مرحوم ایک جلیل القدیر عالم دین ، عربی اور اردو زبان و ادب کے ادیب تھے ۔ عربی زبان میں ان کی تالیف ' نزھہ الخواطر ' آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ یہ علماء ہند اور مشاہیر کے حالات زندگی اور ان کے علمی کارناموں پر مشتمل ہے ۔ یہ ان کا عظیم علمی کارنامہ ہے ۔ جلیل القدر عالم دین مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ تحریر کرتے ہیں کہ : " نزھہ الخواطر' کی قدر و قیمت مجھے اس کتاب ( مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت) لکھنے کے وقت جتنی ظاہر ہوئی اس سے پہلی نہیں ہوئی تھی ۔ اللہ کے اس مخلص بندے نے کمال کردیاہے ۔ سمندروں کو کھنگال گئے ہیں لیکن پتہ بھی نہ چلنے دیا ۔ خدا کرے ان کی اس محنت سے دنیا کو استفادہ کا موقع مل جائے ۔ایک انقلابی کام کرکے وہ چلے گئے ہیں "۔ آج ان کی یہ شاہکار تصنیف جو ڈر حقیقت ایک انسائیکلوپیڈیا ہے عالم عرب سے شائع ہوگئی ہے ۔ عرب علماء ، محققین اور مورخین نے اس کتاب دلپذیر کو بہت پسند کیا اور اس کی تحسین کی ۔ آپ دارالعلوم ندوة العلماء کے ناظم تھے ۔ ان کے بعد علامہ ندوی رحمہ کے بڑے بھائی ڈاکٹر عبد العلی مرحوم ندوی کے ناظم ہوئے ۔ اس خاندان کی تاریخ سے بر صغیر کے اہل علم و فضل اچھی طرح واقف ہیں ۔ اس لیے علامہ ندوی رحمہ بر صغیر خصوصا ہند بڑی عزت اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ یہ ہے ان کی تعمیر شخصیت کا خشت اول ۔ دارالعلوم کے سب سے نمایاں تعلیم یافتہ اور فاضل بلکہ اس کے لیے سرمایہ افتخار و نازش سید سلیمان ندوی رحمہ تھے ۔ سید صاحب کی علمی زندگی کا سب سے نمایاں اور ممتاز پہلو طبقہ علماء میں ان کی جامعیت اور علوم و مضامین کا تنوع تھا ۔ علامہ ندوی رحمہ ان کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ : " ان کی ذات اور ان کی علمی زندگی میں قدیم و جدید سے واقفیت ، علمی تبحر اور ادبی ذوق ، نقاد و مورخ کی حقیقت پسندی اور سنجیدگی ، ادباء اور انشاء پروازوں کی شگفتگی اور حلاوت ، فکر و نظر کا لوچ اور مطالعہ کی وسعت اس طرح جمع ہوگئی تھی جو شاذ و نادر جمع ہوتی ہے "۔ " سید صاحب نے نصف صدی سے زیادہ علماء کی اس قدیم جامعیت کو زندہ و نمایاں رکھا اور دینی و علمی و ادبی حقلوں میں بیک وقت نہ صرف باریاب بلکہ اکثر صدر نشین رہے ۔ ان کی زندگی اور مختلف ذمہ داریاں جو انہوں نے مختلف وقتوں میں سنبھالیں خود ان کی جامعیت کا ثبوت ہیں " مجلس خلافت سلطان ابن مسعود کی دعوت پر مؤتمر اسلامی میں شرکت اور مسلمانان ہند کی ترجمانی کے لیے ایک وفد تشکیل کرتی ہے تو اس کی قیادت کے لیے ان سے زیادہ موزوں شخص نظر نہیں آیا جو عالم اسلام کے اس نمائندہ اور منتخب مجمع میں عربی میں اظہار خیال کی قدرت رکھتا ہو اور مسلمانان ہند کی دینی و علمی عظمت کا ترجمان ہوسکے "۔ جارى ڈاکٹر محمد لئیق ندوی