Рет қаралды 19,635
علی مطہر اشعر
پھر وُہی سوچ کہ یہ واقعہ کب دیکھتے ہیں
کون توڑے گا فسوں کاریِ شب، دیکھتے ہیں
بہ شکریہ پاکستان ٹیلیویژن
پھر وُہی سوچ کہ یہ واقعہ کب دیکھتے ہیں
کون توڑے گا فسوں کاریِ شب، دیکھتے ہیں
ایک ہی جیسے سرابوں کا تسلسل ہے کہ لوگ
ایک عرصے سے سرِ دشت طلب دیکھتے ہیں
منتظر ہیں کہ کبھی بادِ سُکوں خیز چلے
مضمحل ہیں کہ ہواؤں کے غضب دیکھتے ہیں
مژدۂ خوبیِ تعبیر ملے گا کہ نہیں
دیکھیے خواب میں دیکھا ہُوا، کب دیکھتے ہیں
یہ بھی اک طرزِ تکلم ہے سرِ بزم، کہ ہم
سب کے چہروں کی طرف مہر بَلَب دیکھتے ہیں
ہم میں اک شخص بھی ناواقفِ حالات نہیں
سب کے سب صاحبِ ادراک ہیں، سب دیکھتے ہیں
اپنے ہاتھوں کی پراسرار لکیریں اشعر
ہم نے پہلے کبھی دیکھی ہیں نہ اب دیکھتے ہیں
علی مطہر اشعر