ورز ده قیامت ده دی شیهدان وینه ضواب ورکوی طالبان ان شاءالله
@user-pz7ix5dr3w7 ай бұрын
,amin😭🤲🇵🇰🇸🇦🇹🇷🇯🇴🇧🇩🇵🇸🇦🇫🤲🥀
@ahmaddanush20246 ай бұрын
اسلام علیکم ورحمت الله وبرکاته جناب مولوی صیب . مثلا برادرت خانه ره گرو میکند اینجا خودش نیست و برادرش در خانه زندگی میکند این سود است یانه؟ اگر است کفاره اش چیست؟ لطفا جواب دهید خیلی مسئله خطرناک است.
مر ہو نہ سے انتفاع کا حکم سوال:۔ اگر ما لک مرتہن کو مرہونہ سے فائدہ لینے کی اجازت دے دے تو کیا اس کی اجازت کو مد نظر رکھتے ہوئے مر تہن کے لیے مر ہو نہ سے ا نتفاع لینا جا ئز ہے یا نہیں؟ الجواباگرچہ مالک کی با قا عدہ اجازت اس کی مملو کہ چیز سے انتفاع لینے ،گنجائش کی صورت مہیا کر کے جواز کی دلیل بن سکتی ہے لیکن مر تہن کو راہن کی طرف سے جو اجازت دی جا تی ہے اس کے پس منظر میںکو ن سے جذبات کا رفرما ہیں۔ جس کی وجہ سے مالک اپنی ملکیت سے اپنی ضرورت کے با وجو د دوسرے کو استفادہ کا مو قعہ دیتاہے ، راہن اورمر تہن کے باہمی معاملات کو مد نظرر کھتے ہو ئے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مر تہن کو یہ مو قعہ اس کے قرض کے عوض دیا جا تا ہے جو کہ ما لک دے چکا ہے ،مالک مرتہن کے احسان سے مجبور ہو کر بلا چون وچرا مر تہن کے سا منے سر تسلیم خم کر کے اجازت دے دیتا ہے ،اس کی یہ ا جازت مجبوری کی اجازت ہے جس کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔یہی وجہ ہے کہ فقہاء کرامؒنے تصریح کی ہے کہ مالک کی اجازت کے با وجود مر تہن کے لیے رہن سے انتفاع لینے کی گنجائش نہیں ہے ۔ لما قال العلامۃ السید احمد الطحطاویؒ: (تحت قولہ وسیجییٔ آخرھن) قلت والغالب من احوال الناس انہم یریدون عند الدفع الانتفاع ولو لاہ لما اعطاہ الدراہم وھٰذا بمنزلۃ الشرط لان المعروف کالمشروط وھو مما یعین المنع۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم۔ انتہیٰ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار:ج؍۴،ص؍۲۳۴، کتاب الرھن) قال العلامۃ ابن عابدینؒ:والغالب من احوال الناس اَنَّھُمْ انما یریدون عندالدفع الانتفاع لولاہ لما اعطاہ الدراھم وھٰذا بمنزلۃ الشرط،لأن المعروف کالمشروط وھوممّا یعین المنع۔واللّٰہ تعالٰی اعلم۔(ردالمحتار:ج؍۶،ص؍۴۸۲،کتاب الرھن) (فتاویٰ حقانیہ :ج؍۶،ص؍۲۲۸)
@ahmaddanush20246 ай бұрын
به فارسی بیان کنید @@usmanalhanafi
@usmanalhanafi6 ай бұрын
@@ahmaddanush2024 په اختصار د مرهون شي څخه کټه اخیستل جائز ندي. وقتی عالم سید احمد التحطاویف گفت: (زیر قول او و آخرشان می آید) گفتم و بیشتر شروط مردم این است که در هنگام پرداخت منفعت بخواهند و اگر به او نداده بود. درهم، این در مقام شرط است، زیرا آنچه معلوم است، مانند شرط است و معین است. علامه بن عابدین می گوید: و الشرط الناس اکثراً ولکن منفعت فی هذا الذمه الا درهم و این طبق شرط است زیرا معلوم شرط است. ولی این حرام است و خدای تعالی می داند.
@afghan7343 ай бұрын
برادر سلام ع اگه خانه رو گرو میکند بعد برادر دیگه ش زندگی میکند باید صاحب خانه در جریان باشد دوم در قرار داد خانه باید اسم ش ذکر بشه و اگه پولش برادر ش حساب میکند مشکل نیست اما اگه زندگی میکند و در اینده خانه دیوار ه ش یا دره خانه خراب بشه باید ترمین ش کند یا پرداخت
@user-fp4qr6mx5w5 ай бұрын
الله اکبر 👑 الله 😍❤😭🤲 Allah 👑 AllahuAkbar ☝🏼🤲 سلام ❤
@user-ed9dd8up1g3 ай бұрын
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
@user-fh7zj2ub9l2 ай бұрын
😢😢😢😢😢😢
@HappyBuoy-nu8tc2 ай бұрын
😢😢😢😢😢
@FeazlHmkir2 ай бұрын
😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢
@janjan-ix6sf6 ай бұрын
❤❤❤😢😢😢
@umairkhan1302 ай бұрын
😢😢😢😢😢😢
@user-fp4qr6mx5w5 ай бұрын
الله اکبر 👑 الله 😍❤😭🤲 Allah 👑 AllahuAkbar ☝🏼🤲 سلام ❤