Shab e Qadar 2 Very Emotional Bayaan || Hafiz Abdul Hafeez Manzgami A One Islamic Production
Пікірлер: 13
@iqrajan6871 Жыл бұрын
Ameenn
@malikmukeet9299 ай бұрын
❤❤
@slaveofallahslaveofallah659 Жыл бұрын
❤❤❤❤😭😭😭
@Mushtaqmovera2500 Жыл бұрын
ماشاءالله 💖❤💖❤💖❤💖
@AqibwaniWani-hq8hj Жыл бұрын
Mashallah ❤❤❤❤❤
@naseerofficialchannel3739 Жыл бұрын
❤❤❤
@showkatsalafieproduction Жыл бұрын
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
@qhacademy3137 Жыл бұрын
Ya to badat ha
@sahilbakshi6469 Жыл бұрын
Kay chuk wanan apuz fake shab chuk khalan yee oss azee shungulpora ye katuk shab che kholmut
@abudayimmass4533 Жыл бұрын
Jiger❤❤❤
@qhacademy3137 Жыл бұрын
*شب قدر میں تقریر کے جواز کے قائلین کی دلیلیں، استنباط، استدلال اور فقاہت...* کسی بھی شرعی مسئلہ کو ثابت کرنے کیلئے ضروری ہے کہ کتاب و سنت سے دلیل موجود ہو، نیز اس مسئلہ کو اپنی فہمِ سقیم کے سہارے سمجھنے کے بجائے سلف صالحین کے فہم کا سہارا لیا جائے. نیز کسی مسئلے میں صرف دلیل کا ہونا کافی نہیں ہوتا، بلکہ اس دلیل کا صحیح ہونا اور جس مسئلہ پر اس دلیل سے استدلال کیا جا رہا ہے اس متعلق اس کا صریح و واضح ہونا بھی ضروری ہوتا ہے. مثال کے طور پر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جشن ولادت منانے والے آیت کریمہ: ﴿قُل بِفَضلِ اللَّهِ وَبِرَحمَتِهِ فَبِذلِكَ فَليَفرَحوا﴾ [يونس: ٥٨] سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں: آیت بالا میں اللہ رب العالمین نے اپنے فضل اور رحمت پر خوش ہونے کا حکم دیا ہے، اور یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور بعثت اس امت پر اللہ کا بڑا فضل اور اس کی رحمت ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم ان کی ولادت کے موقع پر جشن مناتے ہیں.... مذکورہ دلیل صحیح ہے لیکن اس کے با وجود جشن ولادت پر اس سے استدلال کرنا تین وجہ سے درست نہیں، کیوں کہ: 1- اس دلیل میں جشن ولادت منانے کی صراحت نہیں. 2- صحابہ کرام اور سلف صالحین نے اس دلیل سے وہ بات نہیں سمجھی جو جشن ولادت منانے والے سمجھ رہے ہیں. 3- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور سلف صالحین نے ایک مرتبہ بھی جشن ولادت نہیں منایا اور نہ ہی اس کی ترغیب دی، اگر جشن ولادت منانا خیر و بھلائی کا کام ہوتا تو سلف صالحین ہر گز اس سے پیچھے نہیں رہتے. معلوم یہ ہوا کہ کسی مسئلہ کو ثابت کرنے کیلئے دلیل کے صحیح ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا صریح ہونا بھی ضروری ہے، نیز اس دلیل کو فہم سلف کی روشنی میں ہی سمجھا جائے گا.... اب آئیں ذیل میں لیلۃ القدر میں تقریر کے جواز کے قائلین کے دلائل کا جائزہ لیا جائے... بیشتر عالم، طلبہ علم اور عام لوگوں نے مجھے ایک دلیل بھیجی اور اس سے لیلۃ القدر میں تقریر اور وعظ و نصیحت کے جواز پر دلیل بتایا، بلکہ ایک عالم صاحب نے اس دلیل کی بنا پر لیلۃ القدر کی رات میں تقریر کرنا سنت قرار دیا، وہ دلیل ذیل میں نقل کی جاتی ہے: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((وَأَنَّهُ أَقَامَ فِي شَهْرٍ جَاوَرَ فِيهِ اللَّيْلَةَ الَّتِي كَانَ يَرْجِعُ فِيهَا فَخَطَبَ النَّاسَ فَأَمَرَهُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ قَالَ كُنْتُ أُجَاوِرُ هَذِهِ الْعَشْرَ ثُمَّ قَدْ بَدَا لِي أَنْ أُجَاوِرَ هَذِهِ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ فَمَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعِي فَلْيَثْبُتْ فِي مُعْتَكَفِهِ)). ایک رمضان میں جب آپ اعتکاف سے تھے تو اس رات بھی مسجد میں مقیم رہے جس میں آپ کی عادت گھر واپس آنے کی تھی۔ آپ نے وہاں لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق انھیں کچھ احکام بتائے، پھر فرمایا: ’’میں اس دوسرے عشرے میں اعتکاف کرتا تھا لیکن اب مجھ پر واضح ہوا ہے کہ میں آخری عشرے میں اعتکاف کروں، اس لیے جو شخص میرے ساتھ اعتکاف میں رہا ہے وہ اپنی اعتکاف گاہ میں رہے.. لیلۃ القدر میں تقریر کو جائز بلکہ سنت کہنے والے اس حدیث کو پیش کرکے کہتے ہیں: یہ دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر میں خطبہ دیا تھا، اس لئے لیلۃ القدر میں تقریر، خطبہ اور وعظ و نصیحت سنت ہے....