Рет қаралды 6,198
GHAZAL: Ye Aarzu Thi Tujhe Gul Ke Rubaru Karte
POET: KHWAJA HAIDER ALI AATISH
SINGER: USTAD AMANAT ALI KHAN
FOLLOW US ON SOCIAL MEDIA
Facebook: / harfoaahang
Twitter: harf_o_aahang?s=09
Instagram: / harfoaahang
استاد امانت علی خان (1922-1974)
موسیقی کی کلاسیکی روایت کے امین اور نمائندہ گلوکار استاد امانت علی خاں ہوشیار پور، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ کلاسیکی موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا ان کی خاندانی روایت تھی جس پر انہوں نے عمل کیا۔ موسیقی کے معروف پٹیالہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے بھائی استاد فتح علی خاں کے ساتھ جوڑی کی شکل میں فن کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ انہوں نے خیال گائیکی، ترانہ اور ٹھمری کے ذریعے اپنے بزرگوں کا نام روشن کیا۔
کلاسیکی موسیقی کی تعلیم پانے اور اپنے فن کے ماہر ہونے کے باوجود انہوں نے کلاسیکی فن کا رخ لائٹ موسیقی کی طرف موڑا اور گلشنِ غزل میں نئے شگوفے کھلائے۔ وہ سُر اور لے پر مکمل قدرت رکھتے تھے اور بہت پختگی سے گاتے تھے۔ ان کی غزل گائیکی میں مختلف انداز ملتے ہیں۔ "خیال انگ" اور "گیت انگ" دونوں انداز انہوں نے کامیابی سے نبھائے ہیں۔ "خیال انگ" میں ان کی گائی ہوئی خواجہ حیدر علی آتش کی اس غزل کو ان کی نمائندہ غزل قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے
ہم اور بلبلِ بیتاب گفتگو کرتے
پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مو کرتے
لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے میں ہم
طلائی ساغرِ مے نقرئی سبو کرتے
ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفوگر رہے رفو کرتے
جو دیکھتے تری زنجیرِ زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
بیاضِ گردنِ جاناں کو صبح کہتے جو ہم
ستارۂ سحری تکمۂ گلو کرتے
یہ کعبے سے نہیں بے وجہ نسبتِ رخِ یار
یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رو کرتے
سکھاتے نالۂ شبگیر کو در اندازی
غمِ فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے
وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے
نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتشؔ
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
انتخاب و پیشکش: حرف و آہنگ
#Amanat_Ali_Khan
#Haider_Ali_Aatish
#Best_ Ghazal_Music