Рет қаралды 882
سرمد صہبائی
کیا خبر ہم سے ملے و ہ نہ ملے
(فیض صاحب کی آخری سالگرہ پر اُن کی موجودگی میں پڑھی گئی)
شکریہ : نیا دور ٹیلی ویژن
کیا خبر ہم سے ملے وہ نہ ملے
رات کے شہر میں مہتاب کی عریانی میں
محملِ خواب لیے ہالۂ آغوش لیے
اَبرِ رفتار لیے قامتِ زَرپوش لیے
کیا خبر ہم سے ملے وہ نہ ملے
جلوۂ رنگِ حنا عطرِ ملاقات لیے
ہجر کی رُت میں ملے وصل کی سوغات لیے
کیا خبر ہم سے ملے وہ نہ ملے
کیا خبر ہم سے ملے
ماتم ِگل میں کہیں موسمِ افسوس لیے
اشکِ محروم کی دُھندلائی ہوئی اوس لیے
کیا خبر صبحِ سفر ساحلِ رخصت پہ ملے
چشمِ بینا سے پرے منزلِ حیرت پہ ملے
جانیے کون سی مُہلت پہ ملے
کیا خبر ہم سے ملے وہ نہ ملے
شہر در شہر ملے ہانپتی تنہائی میں
جشنِ تعزیر میں یا جلسۂ رسوائی میں
جانے کس آن میں کِس موجِ جنو ں میں آئے
عکسِ خورشید لیے شیشۂ خُوں میں آئے
کیا خبر ہم سے ملے
ہر رگِ جاں میں تڑپتے ہوئے دم لیتے ہوئے
تختہ دار کی بانہوں میں جنم لیتے ہوئے
سرمد صہبائی