Рет қаралды 3,687
جون ایلیا
حال یہ ہے کہ خواہشِ پُرسشِ حال بھی نہیں
اُس کا خیال بھی نہیں، اپنا خیال بھی نہیں
وڈیو کے لیے شکریہ : محترم آفاق امتیاز اور محمد اسحاق اعجاز ( مرحوم )
حال یہ ہے کہ خواہشِ پُرسشِ حال بھی نہیں
اُس کا خیال بھی نہیں، اپنا خیال بھی نہیں
اے شجرِ حیاتِ شوق، ایسی خزاں رسیدگی !
پوششِ برگ و گُل تو کیا، جسم پہ چھال بھی نہیں
مُجھ میں وہ شخص ہو چکا جس کا کوئی حساب تھا
سُود ہے کیا، زیاں ہے کیا، اِس کا سوال بھی نہیں
مست ہیں اپنے حال میں دل زدگان و دلبراں
صُلح و سلام تو کُجا، بحث و جدال بھی نہیں
تُو مِرا حوصلہ تو دیکھ، داد تو دے کہ اب مجھے
شوقِ کمال بھی نہیں، خوفِ زوال بھی نہیں
خیمہ گہِ نگاہ کو لُوٹ لیا گیا ہے کیا؟
آج اُفق کے دوش پر گرد کی شال بھی نہیں
اف یہ فضاے احتیاط، تا کہیں اُڑ نہ جائیں ہم
بادِ جنوب بھی نہیں، بادِ شمال بھی نہیں
وجہ معاشِ بے دلاں، یاس ہے اب مگر کہاں
اس کے وُرود کا گماں، فرضِ محال بھی نہیں
غارتِ روز و شب تو دیکھ، وقت کا یہ غضب تو دیکھ
کل تو نڈھال بھی تھا مَیں، آج نڈھال بھی نہیں
میرے زمان و ذات کا ہے یہ معاملہ کہ اب
صبحِ فراق بھی نہیں، شامِ وصال بھی نہیں
پہلے ہمارے ذہن میں حُسن کی اک مثال تھی
اب تو ہمارے ذہن میں کوئی مثال بھی نہیں
میں بھی بہت عجیب ہُوں اتنا عجیب ہُوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
جون ایلیا